مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق بین الاقوامی امور کے ماہر محسن پاک آئین نے ایران اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات میں یورپی ممالک اور صہیونی حکومت کی مداخلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی اصل مخالف صہیونی حکومت ہے جو کسی بھی ممکنہ معاہدے کو اپنے مفادات کے خلاف تصور کرتی ہے۔ اسی بنا پر تل ابیب نے مداخلت کا آغاز امریکی کانگریس اور یورپی پارلیمان سے کیا ہے، جو دونوں صہیونی لابی کے زیر اثر ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صہیونی حکومت مذاکرات کے عمل کو دھمکیوں اور خوف کی فضا پیدا کرکے متاثر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یورپی ممالک بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تاکہ ایران کو دھمکیاں دے کر دباؤ کی ایسی فضا قائم کریں جس سے امریکہ زیادہ سے زیادہ رعایتیں حاصل کرسکے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر نے کہا کہ ایرانی حکام نے دوٹوک انداز میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ کسی بھی دباؤ یا دھمکی کو قبول نہیں کریں گے۔ ایران اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے والا نہیں۔
پاک آئین نے مزید کہا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اردگرد موجود مذاکرات کے مخالفین کو قابو میں رکھنے میں کامیاب ہوجائیں تو ایران اور امریکہ کے درمیان کسی معاہدے تک پہنچنا ممکن ہے۔ دونوں ممالک کے سرکاری حکام کے بیانات حوصلہ افزا ہیں۔ اس وقت دونوں فریق مذاکرات کی تفصیلات اور تکنیکی پہلوؤں پر گفتگو کررہے ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ دونوں ممالک معاہدے کی سنجیدہ خواہش رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں جس قدر پیش رفت ہوگی، اتنا ہی زیادہ صہیونی حکومت اور بعض یورپی ممالک کی جانب سے دباؤ اور دھمکیوں میں اضافہ ہوجائے گا۔
انہوں نے صہیونی حکومت کے ممکنہ حملے کے حوالے سے کہا کہ چنانچہ یرانی حکام نے کہا ہے کہ صہیونی حکومت کی کسی بھی قسم کی کارروائی کا ایران کی جانب سے فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ فعال سفارت کاری کے ساتھ ساتھ ایران کی مسلح افواج بھی ہر قسم کی ممکنہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔