ہندوستانی سنیما کے خالق دادا صاحب پھالکے

دادا صاحب پھالکے نے پہلی فلم کے لئے اداکارہ کی تلاش میں ریڈ لائٹ ایریا کا بھی رخ کیا لیکن کوئی خاتون فلم میں کام کرنے کو تیار نہ ہوئی کیونکہ ان دنوں خواتین کا فلموں میں کام کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔


تصویر بشکریہ سوشل میڈیا، وکیپیڈیا
سال 1910 میں ممبئی میں فلم دی لائف آف کرائسٹ کی اسکریننگ کے دوران شائقین میں ایک شخص ایسا بھی تھا جسے اپنی زندگی کا مقصد مل گیا تھا۔ دو ماہ میں اس نے شہر میں دکھائی جانے والی تمام فلمیں دیکھ ڈالیں اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی فلمیں بنائے گا۔ یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ ہندوستانی سنیما کے خالق دادا صاحب پھالکے تھے۔
دادا صاحب پھالکے کا اصل نام دھنڈی راج گووند پھالکے تھا۔ وہ 30 اپریل 1870 کو ناسک، مہاراشٹر کے قریب تریمبکیشور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد داجی شاستری پھالکے سنسکرت کے اسکالر تھے۔ کچھ عرصے بعد ان کا خاندان بہتر زندگی کی تلاش میں ممبئی آگیا۔ دادا صاحب پھالکے بچپن سے ہی فن کی طرف مائل تھے اور وہ اسی شعبے میں اپنا کیرئیر بنانا چاہتے تھے۔ 1885 میں انہوں نے جے جے کالج آف آرٹ میں داخلہ لیا۔ انہوں نے بڑودہ کے مشہور کلا بھون میں آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ ایک ڈرامہ کمپنی میں بطور پینٹر کام کرنے لگے۔ 1903 میں انہوں نے محکمہ آثار قدیمہ میں فوٹوگرافر کے طور پر کام شروع کیا۔ کچھ عرصے بعد دادا صاحب پھالکے کا دل فوٹو گرافی نہیں لگا اور انہوں نے فلم ساز کے طور پر اپنا کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے وہ 1912 میں اپنے دوست سے پیسے لے کر لندن چلے گئے۔ انہوں نے تقریباً دو ہفتے لندن میں فلم سازی کی باریکیاں سیکھیں اور فلم سازی سے متعلق آلات خریدنے کے بعد ممبئی واپس آ گئے۔
ممبئی آنے کے بعد دادا صاحب پھالکے نے ’پھالکے فلم کمپنی‘ قائم کی اور اس کے بینر تلے راجہ ہریش چندر نامی فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے انہوں نے فنانسر کی تلاش شروع کر دی۔ اس دوران ان کی ملاقات فوٹو گرافی آلات کے ڈیلر یشونت ناڈکرنی سے ہوئی، جو دادا صاحب پھالکے سے بہت متاثر ہوئے اور ان کی فلم کا فنانسر بننے پر رضامند ہوگئے۔ دادا صاحب پھالکے کو فلم کی تیاری کے دوران کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ چاہتے تھے کہ فلم میں اداکارہ کا رول کوئی خاتون ہی ادا کرے لیکن ان دنوں خواتین کا فلموں میں کام کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے اداکارہ کی تلاش میں ریڈ لائٹ ایریا کا بھی رخ کیا لیکن کوئی خاتون فلم میں کام کرنے کو تیار نہ ہوئی۔ بعد میں ان کی تلاش ریستوراں میں باورچی کے طور پر کام کرنے والے سالونکے پر ختم ہوئی ۔
دادا صاحب پھالکے اپنی فلم کے ذریعے ہندوستانی ناظرین کو کچھ نیا دینا چاہتے تھے۔ وہ فلم بنانے میں کوئی کسر باقی رکھنا نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے فلم کی ہدایت کاری کے علاوہ اس کی تحریر، سینماٹوگرافی، ایڈیٹنگ اور عکاسی کی تمام ذمہ داریاں خود سنبھا لیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے فلم کی ڈسٹری بیوشن بھی خود کی۔ فلم بنانے کے دوران دادا صاحب پھالکے کی اہلیہ نے ان کی کافی مدد کی۔ اس دوران انہوں نے فلم میں کام کرنے والے تقریباً 500 لوگوں کے لیے کھانا پکایا اور ان کے کپڑے دھوئے۔ اس فلم کو بنانے میں تقریباً 15000 روپے کی لاگت آئی جو کہ ان دنوں کافی بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔ آخرکار وہ دن آگیا جب فلم ریلیز ہونی تھی۔ یہ فلم پہلی بار 3 مئی 1913 کو ممبئی کے کورونیشن سنیما ہال میں دکھائی گئی۔ تقریباً 40 منٹ کی اس فلم کو ناظرین کی جانب سے زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ یہ فلم باکس آفس پر سپر ہٹ ثابت ہوئی۔
فلم راجہ ہریش چندر کی زبردست کامیابی کے بعد دادا صاحب پھالکے ناسک آئے اور فلم موہنی بھسماسور کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ فلم کی تیاری میں تقریباً تین ماہ لگے۔ فلم انڈسٹری کی تاریخ میں موہنی بھسماسور کی کافی اہمیت ہے کیونکہ اس فلم کے ذریعے درگا گوکھلے اور کملا گوکھلے جیسی اداکاراؤں نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کی اولین خاتون اداکارہ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ فلم تقریباً 3245 فٹ لمبی تھی جس میں انہوں نے پہلی بار ٹرک فوٹوگرافی کا استعمال کیا۔
دادا صاحب پھالکے کی اگلی فلم ستیہ وان ساوتری 1914 میں ریلیز ہوئی۔فلم ستیہ وان ساوتری کی کامیابی کے بعد دادا صاحب پھالکے کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی اور ناظرین ان کی فلمیں دیکھنے کے لیے انتظار کرنے لگے۔ وہ اپنی فلم ہندوستان کے ہر ناظرین کو دکھانا چاہتے تھے، اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی فلم کے تقریباً 20 پرنٹس بنائیں گے تاکہ فلم زیادہ سے زیادہ ناظرین کو دکھائی جا سکے۔
سال 1914 میں دادا صاحب پھالکے کو ایک بار پھر لندن جانے کا موقع ملا۔ وہاں انہیں لندن میں رہ کر فلم پروڈکشن کامکمل کام کرنے کی بہت سی پیشکشیں ہوئیں لیکن دادا صاحب پھالکے نے ان تمام پیشکشوں کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کہ وہ ہندوستانی ہیں اور ہندوستان میں رہ کر ہی فلمیں بنائیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے 1918 میں شری کرشن جنم اور 1919 میں کالیا مردن جیسی کامیاب مذہبی فلمیں ڈائریکٹ کیں۔ ان فلموں کا سرور ناظرین کے سر چڑھ کر بولا۔ ان فلموں کو دیکھتے ہوئے لوگ عقیدت کے جذبات میں ڈوب جاتے۔ فلم لنکا دہن کی اسکریننگ کے دوران جب شری رام اور کالیا مردن کی اسکریننگ کے دوران شری کرشن جب پردے پر نظر آتے تو سبھی ناظرین انہیں پرنام کرنے لگے۔
سال 1917 میں دادا صاحب پھالکے کمپنی ہندوستان فلمز کمپنی میں ضم ہوگئی۔ اس کے بعد دادا صاحب پھالکے دوبارہ ناسک آئے اور ایک اسٹوڈیو قائم کیا۔ فلم اسٹوڈیو کے علاوہ انہوں نے اپنے تکنیکی ماہرین اور فنکاروں کے لیے ایک مشترکہ خاندان کی طرح ایک ساتھ رہنے کے لیے ایک عمارت بھی بنائی۔ بیس کی دہائی میں، ناظرین کی دلچسپی مذہبی فلموں سے ہٹ کر ایکشن فلموں کی جانب مائل ہو گئی، جس نے دادا صاحب پھالکے کو گہرا صدمہ پہنچایا۔ بالآخر، فلموں پر کمرشلزم کا غلبہ دیکھ کر، انہوں نے 1928 میں فلم انڈسٹری سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ تاہم، انہوں نے 1931 کی فلم سیتو بندھم سے فلم انڈسٹری میں واپسی کی کوشش کی، لیکن یہ فلم باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی۔
سال 1970 میں، دادا صاحب پھالکے کی صد سالہ پیدائش کے موقع پر، حکومت ہند نے سنیما کے میدان میں ان کی نمایاں خدمات کے اعتراف میں ان کے نام پر دادا صاحب پھالکے ایوارڈ قائم کیا۔ فلم اداکارہ دیویکا رانی فلمی دنیا کا یہ اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کرنے والی پہلی اداکارہ بنیں۔ دادا صاحب پھالکے نے اپنے تین دہائیوں پر مشتمل طویل فلمی کیریئر میں تقریباً 100 فلموں کی ہدایت کاری کی۔ سال 1937 میں ریلیز ہونے والی فلم گنگاوتارم دادا صاحب پھالکے کے فلمی کیریئر کی آخری فلم ثابت ہوئی۔ یہ فلم باکس آفس پر ناکام رہی جس نے انہیں گہرا صدمہ پہنچایا اور انہوں نے فلم سازی کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا۔ تقریباً تین دہائیوں تک اپنی فلموں سے ناظرین کو مسحور کرنے والے عظیم فلم ساز دادا صاحب پھالکے 16 فروری 1944 کو ناسک میں انتہائی خاموشی سے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔