مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران میں پاکستان کے سفیر مدثر ٹیپو نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے پہلگام واقعے پر اسلام آباد کے موقف کی وضاحت کی۔
انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی طرف سے سیاسی اشتعال انگیزیوں کی وجہ سے ہمارے خطے کے امن اور استحکام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔ معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا قابل مذمت ہے۔
ہمیں پہلگام حملے میں جانی نقصان پر تشویش ہے۔ ہم گہرے دکھ کا اظہار کر چکے ہیں، پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہونے کی وجہ سے متاثرین کے درد کو اچھی محسوس کر سکتا ہے۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک رکن کے طور پر، پہلگام واقعے پر LINSC کی طرف سے جاری کردہ پریس بیان پر دیگر اراکین کے ساتھ تعمیری طور پر کام کیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بیان میں اس واقعے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
دوسری طرف، یہ بھارت ہے جو پاکستان میں اپنی قاتلانہ مہم اور دہشت گردی کی سرپرستی کی تعریف کرتا ہے اور اس پر جشن بھی مناتا ہے۔
پاکستان دہشت گردی کا شکار رہا ہے جس کی بھارت کی طرف سے منصوبہ بندی اور حمایت کی جاتی ہے۔ اس پس منظر میں مذکورہ واقعے سے پاکستان کے کسی بھی قسم کے تعلق کو ظاہر کرنا نہایت ہی مضحکہ خیز ہے۔
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارت سیاسی مقاصد کے لیے اپنی ڈس انفارمیشن پالیسی کے ذریعے غیر مصدقہ الزامات کا سہارا لے رہا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارت نے اس طرح کے ہتھکنڈوں کا سہارا لیا ہو۔ درحقیقت، یہ اب ایک بہت ہی جانا پہچانا حربہ بن چکا ہے، جس کا مقصد کشمیریوں کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کو دبانے میں بھارت کی ناکامی سے توجہ ہٹانا ہے۔
بھارت کشمیر میں اپنی سیکورٹی کی ناکامیوں اور وادی پر دہائیوں سے جاری ریاستی دہشت گردی اور جبر کی ہولناکیوں سے بین الاقوامی برادری کی توجہ ہٹانے کے لیےجان بوجھ کر پاکستان کے ساتھ تناؤ بڑھا رہا ہے۔
ہندوستان کا پائیدار حل دوسرے ممالک پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے اپنے اندرونی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے میں ہے۔
بھارت کی ایک تاریخ رہی ہے کہ وہ IIOJK میں معصوم کشمیریوں کو دبانے اور UNSC کی قراردادوں، دوطرفہ معاہدوں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرنے کے لیے "دہشت گردی” کا بہانہ بنا رہا ہے۔
5 اگست 2019 کے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات جو کہ یو این ایس سی کی متعلقہ قراردادوں اور چوتھے جنیوا کنونشن کے ساتھ ساتھ بھارت کے اپنے وعدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
جنوبی ایشیا میں عدم استحکام اور تنازعات کی بنیادی وجہ جموں و کشمیر کا حل طلب تنازعہ ہے۔
ہمیں بھارت کی جانب سے کشمیریوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف انتہائی وحشیانہ، اشتعال انگیز اور اسلامو فوبک بیانیے پر تشویش ہے۔
بھارتی میڈیا اور سیاسی رہنما پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز گفتگو کر رہے ہیں۔ سیاسی فائدے کے لیے اس طرح کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ پورے خطے کو عدم استحکام کی طرف لے جا رہا ہے۔
بھارت نے پہلگام حملے کے بعد بغیر کسی ثبوت کے اور غیر معمولی تیزی سے پاکستان پر الزامات لگائے۔ ہندوستان کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ایسے ‘واقعات’ عام طور پر ہائی پروفائل دوروں کے ساتھ ہی کیوں ہوتے ہیں؟
ہم غیر جانبدار تفتیش کاروں سے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان کا نہ تو اس سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی یہ ممکنہ فائدہ اٹھانے والا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور ہم دہشت گردی کے خلاف نمایاں پیش رفت کر رہے ہیں، ہمیں یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ صورتحال بھارت کی طرف سے اچانک کیوں پیدا ہو رہی ہے اور اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟
بھارت نے اپنی کابینہ کمیٹی برائے سلامتی کے بعد جن اقدامات کا اعلان کیا ہے وہ غیر قانونی اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کا التوا یکطرفہ اور غیر قانونی ہے۔ معاہدے میں ایسی کوئی شقیں نہیں ہیں۔ یہ کارروائی بین الاقوامی معاہدوں کے تقدس کے لیے بھارت کی صریح بے توقیری کو ظاہر کرتی ہے اور یہ علاقائی اور عالمی استحکام کے گہرے مضمرات کے ساتھ علاقائی تعاون کے ایک بنیادی ستون پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان ایک زرعی معیشت ہے، لاکھوں لوگ اس معاہدے کے ذریعے ریگولیٹ کیے جانے والے پانیوں پر انحصار کرتے ہیں۔
پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق پاکستان کے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش اور زیریں دریا کے حقوق غصب کرنے کو ایکٹ آف وار تصور کیا جائے گا۔ یہ پاکستانی عوام اور اس کی معیشت پر حملے کے مترادف ہے۔
بھارت کے دیگر سفارتی اقدامات بلا امتیاز اور غیر ضروری ہیں۔ مثال کے طور پر، یہ پابندیاں عام لوگوں پر سنگین انسانی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں بھارتی اقدامات اور بیان بازی انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔
پاکستان عالمی برادری کا ایک ذمہ دار رکن ہونے کے ناطے تحمل پر یقین رکھتا ہے اور علاقائی امن و استحکام کے لیے پرعزم ہے۔
تاہم، کسی بھی جارحیت کی صورت میں، پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 میں درج قانونی حق کی بنیاد پر اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے پرعزم ہے۔
بین الاقوامی برادری کو درج ذیل سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے: عالمی برادری کو واقعے کے متاثرین کے ساتھ اپنی ہمدردی اور بھارتی جارحیت کی بلا سوچے سمجھے توثیق کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارتی پروپیگنڈے کے تناظر میں، بین الاقوامی برادری کو غیر ذمہ دارانہ فوجی مہم جوئی کے لیے نادانستہ طور پر نئی دہلی کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔
بین الاقوامی قانون کی بھارتی بے توقیری دیگر بین الاقوامی وعدوں اور ذمہ داریوں کی بھی خلاف ورزی کا باعث بنے گی۔
ہندوستان کی انتہا پسندی پر مبنی علاقائی سوچ مستقل عدم استحکام اور غیر متوقع صورت حال کا باعث بنے گی۔
اسلامو فوبیا اور نفرت کا ماحول بنانے کی بھارتی کوشش کہ جہاں مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان کی کشیدگی بڑھانے کی کوششیں خطے کے جوہری ماحول میں ممکنہ طور پر تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتی ہیں۔
عالمی برادری کو بھارت کو امریکہ، کینیڈا اور پاکستان میں اس کی قاتلانہ مہم کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان موجودہ صورت حال ہر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، ہم چوکس ہیں اور اپنی پسند کے وقت اور جگہ پر مناسب انداز میں جواب دیتے ہوئے کسی بھی مہم جوئی کو ناکام بنائیں گے۔”