ممبئی (منصف نیوز ڈیسک) بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ماہم یونٹ کی صدر اکشتا ٹنڈولکر سمیت نو کارکنوں کے خلاف شیواجی پارک پولیس نے دادَر مارکیٹ علاقے میں مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ہاکرس(چھوٹے تاجرین) کے ساتھ بدسلوکی اور حملے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔
یہ واقعہ جمعرات کی شام پیش آیا، جس نے ملک بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر شدید غم و غصے اور تشویش کو جنم دیا ہے۔ ایک ہاکر سوربھ مشرا کی طرف سے درج کرائی گئی شکایت کے مطابق، ٹنڈولکر اور ان کے ساتھی مارکیٹ میں آئے، وہاں موجود دکانداروں سے ان کے مذہب کے بارے میں سوالات کیے، اور جب صوفیان شاہد علی کی مسلم شناخت کی تصدیق ہوئی تو اسے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔
رپورٹس کے مطابق، جب علی نے بھاگنے کی کوشش کی تو ان لوگوں نے اس کا تعاقب کر کے دوبارہ حملہ کیا۔یہ واقعہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور دھمکی آمیز رویے کے بڑھتے ہوئے رجحان کا حصہ ہے، جہاں ہندو گروپس اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے زور زبردستی اور جارحیت کا سہارا لے رہے ہیں۔
دادَر مارکیٹ میں مسلم دکانداروں کو نشانہ بنایا جانا ملک میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا اور اجنبیوں سے نفرت (زینوفوبیا) کی واضح مثال ہے۔ٹنڈولکر نے اپنے عمل کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ غیر قانونی بنگلہ دیشی باشندوں کے بارے میں شکایت کرنے کے لیے مارکیٹ گئی تھیں، تاہم ان کے اس دعویٰ کو بہت سے لوگوں نے شکوک و شبہات ظاہر کئے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتی گروپس کو نشانہ بنانے کی ایک محض بہانہ سازی ہے۔ممبئی پولیس نے ٹنڈولکر اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہیتا (نیا ہندوستانی فوجداری قانون) اور مہاراشٹرا پولیس ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
پولیس واقعے کی تفتیش کر رہی ہے اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ملزمین کو ان کے عمل کا جوابدہ بنایا جائے گا یا نہیں۔یہ واقعہ نفاذ قانون اداروں کی جانب سے ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کے حقوق اور سلامتی کے تحفظ کے لیے زیادہ سخت اقدامات اور جوابدہی کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے حالیہ واقعات ایک بڑے مسئلے کی علامت ہیں، جس کے حل کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔